Sunday 11 February 2024

اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا

 اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا

وہی پڑھایا گیا مجھ کو جو نصاب میں تھا

وہی تو دن تھے اجالوں کے پھول چننے کے

انہیں دنوں میں اندھیروں کے انتخاب میں تھا

بس اتنا یاد ہے کوئی بگولا اٹھا تھا

پھر اس کے بعد میں صحرائے اضطراب میں تھا

مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں

مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا

بلا کا حبس تھا پر نیند ٹوٹتی ہی نہ تھی

نہ کوئی در نہ دریچہ فصیل خواب میں تھا

بس ایک بوند کے گرتے ہی ہو گیا آزاد

وہ ہفت رنگ اجالا جو مجھ حباب میں تھا


وکاس شرما راز

No comments:

Post a Comment