حاکمِ وقت ہی قاتل ہے، خُدا خیر کرے
ہم سے مرعوب نہ باطل ہے خدا خیر کرے
اس لیے شیدا مِرا دل ہے خدا خیر کرے
اس کے رُخسار پہ اک تِل ہے خدا خیر کرے
وہ بس اک بار مجھے دل سے لگائے اپنے
آرزوئے دلِ بسمل ہے خدا خیر کرے
چھیڑ تو دوں میں کسی شوخ حسینہ کو مگر
مجھ سے برہم ابھی محفل ہے خدا خیر کرے
گھر میں پتی ہے نہ چینی ہے نہ ادرک اپنے
چائے پینے کا مِرا دل ہے خدا خیر کرے
بھائی کو بھائی سے آپس میں لڑانے کا ہُنر
اس کی فطرت میں ہی شامل ہے خدا خیر کرے
واسطے جس کے جوانی یہ لُٹائی میں نے
آج مجھ سے وہی غافل ہے خدا خیر کرے
اب تو حالات مِرے شہر کے گڑبڑ ہیں بہت
کوئی صادق نہ ہی عادل ہے خدا خیر کرے
آج جس سے تم اُلجھ بیٹھے تھے کاظم صاحب
ایک نمبر کا وہ جاہل ہے، خدا خیر کرے
کاظم شیرازی
No comments:
Post a Comment