فکر ناکامئ تدبیر کروں یا نہ کروں
ہم نشیں شکوۂ تقدیر کروں یا نہ کروں
درد کی آخری منزل ہے مسرت آگیں
تلخیٔ دہر کی تفسیر کروں یا نہ کروں
ربط باہم ہی سے ہے ان کے زمانہ قائم
حسن کو عشق سے تعبیر کروں یا نہ کروں
پھر اٹھے گا وہی طوفان حوادث اے دوست
پھر سے دنیا کو میں تعمیر کروں یا نہ کروں
پھر سے مشکوک ہوئے میری محبت کے نقوش
پھر نئے طور سے تحریر کروں یا نہ کروں
شاید اک نسخۂ اکسیر کی صورت نکلے
اس غم دل کی میں تفسیر کروں یا نہ کروں
سلطان الحق شہیدی
No comments:
Post a Comment