جنونِ عشق میں دیکھو کہیں ایسا نہ کر لینا
تم اپنے دامنِ احساس کو مَیلا نہ کر لینا
زلیخا آپ ہیں یہ سچ ہے لیکن میں نہیں یوسف
غلط فہمی میں اپنے آپ کو رُسوا نہ کر لینا
نمک پاش اپنی فطرت سے نہ ہرگز باز آئیں گے
تم اپنے زخمِ دل کو چھیڑ کر گہرا نہ کر لینا
زمانے کی نگاہوں سے گرے تو اٹھ نہ پاؤ گے
بلندی پر پہونچ کے اپنا قد اونچا نہ کر لینا
غلامی نفس کی بربادیوں کا پیش خیمہ ہے
کہیں ویران اپنے زیست کی دنیا نہ کر لینا
اٹھا کر انگلی دانستہ کسی مجبور کی جانب
غرور و کِبر میں نقصان تم اپنا نہ کر لینا
خدا کے واسطے تم چند سکوں کے لئے کامل
کسی مکّار سے معیار کا سودا نہ کر لینا
ریاض الدین کامل
No comments:
Post a Comment