Saturday 17 February 2024

نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی

 نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی

یہ اور بات ہے کہ مِرے حال پر نہ تھی

وہ شام بے چراغ مقدر ہوئی مجھے

جو آشنائے جلوۂ روئے سحر نہ تھی

بھٹکے ہوئے تھے جادۂ راہِ وفا سے ہم

جب تک کسی کی یاد شریکِ سفر نہ تھی

تجھ کو مِری نگاہ نے ڈھونڈا ہے بار ہا

اس رہگُزر پہ بھی جو تِری رہگُزر نہ تھی

محفل میں تھے سب اپنی جگہ مطمئن مگر

کیا جانے وہ نگاہ کدھر تھی کدھر نہ تھی

شفقت مِرا خیال انہیں کیوں نہ آ سکا

ان کو مِرے خیال سے وحشت اگر نہ تھی


شفقت کاظمی

No comments:

Post a Comment