دنیا سے تو جھوٹ بتایا جا سکتا ہے
لیکن دل کیسے سمجھایا جا سکتا ہے
تنہا لوگو! دیواریں تو سُن لیتی ہیں
دیواروں کو حال سُنایا جا سکتا ہے
عُمر لُٹائی جا سکتی ہے اک لمحے پر
اک لمحہ تا عُمر چلایا جا سکتا ہے
دل صحرا میں صدیوں سے اک ویرانی ہے
تم آؤ تو شہر بسایا جا سکتا ہے
تم سے مل کر اتنی تو اُمید ہوئی ہے
اس دُنیا میں وقت بِتایا جا سکتا ہے
کئی دنوں کے بعد تمہاری یاد آئی ہے
کئی دنوں تک کام چلایا جا سکتا ہے
اے خوابیدہ آنکھو پلکیں بند ہی رکھنا
ورنہ سارا کما کمایا جا سکتا ہے
منوج اظہر
No comments:
Post a Comment