Wednesday 28 February 2024

بیٹھے ہیں اس طرح سے وہ آنسو نکال کر

بیٹھے ہیں اس طرح سے وہ آنسو نکال کر

رکھّا ہے جیسے گل کوئی خوشبو نکال کر

تصویر دیکھتی تھی وہ عہد شباب کی

صندوق میں رکھے ہوئے گھنگرو نکال کر

مل جائے گا تمہارے ہر اک مسئلے کا حل

سوچیں اگر نئے نئے پہلو نکال کر

بھٹکا ہوا تھا میں مجھے رستہ دکھا دیا

اللہ نے اندھیرے میں جگنو نکال کر

اس کو زمانے والوں نے مجرم سمجھ لیا

عزّت بچارہی تھی جو چاقو نکال کر

جی نہ سکے گا چین سے پچھتا ئے گا بہت

اپنے حسین دل سے مجھے تو نکال کر

کہنے سے پہلے سوچ لیں بیٹھے ہیں کتنے لوگ

تنقید و تبصرے کے ترازو نکال کر

میں نے کہا کہ موتی کو دیکھا بھی ہے کبھی

آنکھوں سے اس نے رکھ دئیے آنسو نکال کر

کامل گماں سے آگے زمانہ نکل گیا

اڑتے ہیں لوگ خواب میں بازو نکال کر


ریاض الدین کامل 

No comments:

Post a Comment