Tuesday, 20 February 2024

عمر گزری ہے تری گلیوں کے چکر کاٹ کر

 عمر گزری ہے تری گلیوں کے چکر کاٹ کر

کیوں نہ لکھوں خود کو مجنوں میں سخنور کاٹ کر

جانے یہ کیسی شرارت آج سوجھی ہے اسے

وہ مجھے اڑنے کو کہتی ہے مرے پر کاٹ کر

جب بھی میں ہمت جٹا کر کرتا ہوں اظہار عشق

بولنے لگتی ہے پگلی بات اکثر کاٹ کر

کتنی آسانی سے کرتے ہیں وہ پوری خواہشیں

مائی پتھر دل پہ رکھ کر بابا پتھر کاٹ کر

آج پھر پیچھے پڑا ہے قافلہ فرعون کا

اے مرے رہبر بنا رستہ سمندر کاٹ کر

اے عطاؔ ظاہر تو کر بے چینیوں کے راز کچھ

لکھ رہا ہے نام کس کا تو برابر کاٹ کر


عامر عطا

No comments:

Post a Comment