عمر گزری ہے تری گلیوں کے چکر کاٹ کر
کیوں نہ لکھوں خود کو مجنوں میں سخنور کاٹ کر
جانے یہ کیسی شرارت آج سوجھی ہے اسے
وہ مجھے اڑنے کو کہتی ہے مرے پر کاٹ کر
جب بھی میں ہمت جٹا کر کرتا ہوں اظہار عشق
بولنے لگتی ہے پگلی بات اکثر کاٹ کر
کتنی آسانی سے کرتے ہیں وہ پوری خواہشیں
مائی پتھر دل پہ رکھ کر بابا پتھر کاٹ کر
آج پھر پیچھے پڑا ہے قافلہ فرعون کا
اے مرے رہبر بنا رستہ سمندر کاٹ کر
اے عطاؔ ظاہر تو کر بے چینیوں کے راز کچھ
لکھ رہا ہے نام کس کا تو برابر کاٹ کر
عامر عطا
No comments:
Post a Comment