نہ پھل نہ پُھول نہ سایا شجر میں باقی ہے
مگر وہ سُوکھا ہوا پیڑ گھر میں باقی ہے
گِرے مکان کو صدیاں گُزر گئیں، لیکن
پر اب بھی خوف سا دیوار و در میں باقی ہے
ابھی ہے دیر یہاں انقلاب آنے میں
بڑا سکوت ابھی شور و شر میں باقی ہے
تم آنا چاہو پلٹ کر تو آ بھی سکتے ہو
ہر ایک نقش قدم رہگُزر میں باقی ہے
یہی بہت ہے کہ ہم محفلوں میں ملتے رہیں
محبتوں کا بھرم تو نظر میں باقی ہے
نہ چاہنے میں بھی جی چاہتا ہے ملنے کو
کمی سی کوئی تو خیر و خبر میں باقی ہے
ابھی سے ہمتِ پرواز تو نہ چھوڑ ظفر
ابھی تو جان تِرے بال و پر میں باقی ہے
ظفر زیدی
No comments:
Post a Comment