تم کو جیون میں خسارا بھی تو ہو سکتا ہے
جو تمہارا ہے، ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے
صبح دم یہ جو سرِ شاخ مہکنے لگا پھول
تیرے ملنے کا اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
جو سمندر کے تلاطم سے نکل آیا ہے
اس کو تنکے کا سہارا بھی تو ہو سکتا ہے
تُو جو ہر وقت یہاں شکوہ کناں رہتا ہے
اس زمانے سے کنارا بھی تو ہو سکتا ہے
اُنگلیاں یوں نہ مری راکھ میں پھیرو اپنی
راکھ میں کوئی شرارا بھی تو ہو سکتا ہے
یہ سرِ شام جو گلیوں میں مہکتی ہے حنا
اس میں کچھ ہاتھ تمہارا بھی تو ہو سکتا ہے
چاند کا ہونا ضروری تو نہیں ہے انصر
بات کرنے کو ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے
راشد قیوم انصر
No comments:
Post a Comment