شام غم کی سحر نہ ہو جائے
ہر خوشی مختصر نہ ہو جائے
آہ دل پر اثر نہ ہو جائے
ان کی بھی آنکھ تر نہ ہو جائے
راز الفت سنبھال کر رکھیے
ہر کوئی با خبر نہ ہو جائے
ہجر میں دل کا دل شکن عالم
جو ادھر ہے ادھر نہ ہو جائے
ذکر تکمیل آرزو چھیڑو
رات یوں ہی بسر نہ ہو جائے
مجھ پہ اتنا کرم نہ فرماؤ
میرا غم معتبر نہ ہو جائے
برق پونچھوی
(شِو رتن لال)
No comments:
Post a Comment