مطربہ سے خطاب
بس بند کر اے مطربہ
یہ تیرا سازِ دلربا
یہ سحر زا نغمے ترے
اور جانفزا نغمے ترے
پر کیف ہیں اور دلنشیں
ان کی ضرورت ہی نہیں
دنیا ابھی خاموش ہے
اور غم سے ہم آغوش ہے
سینے یہاں صد چاک ہیں
آنکھیں یہاں نمناک ہیں
چہرے فسردہ ہیں ابھی
احساس مردہ ہیں ابھی
اے مطربہ اے سحرگر
تو پھونک سکتی ہو اگر
دنیائے دل میں زندگی
ہر آب و گل میں زندگی
تو شوق سے اے نطربہ
تو چھیڑ سازِ دلربا
دنیا بھی ہم آواز ہے
ہر دل رہینِ ساز ہے
تیری ادا پر ہو نثار
گلزارِ ہستی کی بہار
بھر دے حیات احساس میں
امید جامِ یاس میں
جذبات جو دے زندگی
ظلمت کو دے تابندگی
لے کر اندھیروں کا دھواں
شمعیں جلا دے ضو فشاں
لا انقلابِ کارگر
ہر گھر بنے جنّت کا گھر
پھر چھیڑ کر اک مست راگ
کر دے خنک ہر تیز آگ
تجھ پر فدا اے مطربہ
ہاں چھیڑ اک نغمہ نیا
عبیدہ انجم
No comments:
Post a Comment