Wednesday 28 February 2024

یہ شام یہ بادل یہ ہوا یاد رہے گی

 یہ شام یہ بادل یہ ہوا یاد رہے گی

ساون تِری ایک ایک عطا یاد رہے گی

مستی بھرے جھونکے ہیں کہ چھلکے ہوئے ساغر

بل کھاتی ہوئی کالی گھٹا یاد رہے گی

بُھولوں گا نہ میں بھی تِری مستانہ ادا کو

تجھ کو بھی مِری لغزشِ پا یاد رہے گی

اس شوخ کے لب چُوم لیے جام سمجھ کر

تا عمر یہ رنگین خطا یاد رہے گی

شرما کے تِرا منہ کو چُھپانا سرِ محفل

اے جانِ حیا! یہ بھی ادا یاد رہے گی

ناراض ہوئے وہ بھی، ہمیں بھی ہے نِدامت

اظہارِ تمنّا کی سزا یاد رہے گی

وہ میری غزل سُن کے بڑے پیار سے بولے

کامل! یہ غزل ہم کو سدا یاد رہے گی


کامل چاندپوری

No comments:

Post a Comment