Sunday, 11 February 2024

محفل میں گفتگو ہوئی جب اعتبار کی

 محفل میں گفتگو ہوئی جب اعتبار کی

نظریں جھکی ہوئی تھیں ہر اک جاں نثار کی

یہ بات یاد رکھیے گا اس خاکسار کی

پوشاک صاف ہوتی ہے ہر عیب دار کی

رخ سے ذرا سی دیر ہٹا لیجیے نقاب

قسمت سنوار دیجیے لیل و نہار کی

رونے لگی وہ دیکھ کے چاندی کی بالیاں

دوشیزہ لو لگائے تھی سونے کے ہار کی

آنکھوں کو نور دل کو میسر ہوں راحتیں

آب و ہوا نصیب ہو گر کوئے یار کی

اپنا غریب زادے نے دل پیش کر دیا

تھی اک امیر زادی کو حاجت شکار کی

قاصد بتا رہا تھا وہ مسرور تھے بہت

"پہنچی خبر جو ان کو مرے انتظار کی"

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم

دل پر مرے رقم ہے غزل یہ خمار کی

وہ بے وفا نہ لوٹ کے آئے گا حشر تک

محنت فضول جائے گی امیدوار کی

وہ خوش رہے جہاں بھی رہے کائنات میں

یہ آرزو ہے صرف دل بے قرار کی

اس کا طواف کرتی ہے حوروں کی انجمن

آنکھوں میں بس گیا ہے جو پروردگار کی

مالی نے گلستاں کو خزاں میں بدل دیا

کوئی خبر نہیں ابھی فصل بہار کی

مسند نشین واقف حالات ہے مگر

اُس کو نہیں ہے فکر غم روزگار کی

پوچھا نہیں کسی نے غریب الدیار سے

گزری ہے کیسے عید غریب الدیار کی

محور کو دشمنوں کا کوئی خوف ہی نہیں

اوقات جانتا ہے وہ گرد و غبار کی


محور سرسوی

No comments:

Post a Comment