محفل میں گفتگو ہوئی جب اعتبار کی
نظریں جھکی ہوئی تھیں ہر اک جاں نثار کی
یہ بات یاد رکھیے گا اس خاکسار کی
پوشاک صاف ہوتی ہے ہر عیب دار کی
رخ سے ذرا سی دیر ہٹا لیجیے نقاب
قسمت سنوار دیجیے لیل و نہار کی
رونے لگی وہ دیکھ کے چاندی کی بالیاں
دوشیزہ لو لگائے تھی سونے کے ہار کی
آنکھوں کو نور دل کو میسر ہوں راحتیں
آب و ہوا نصیب ہو گر کوئے یار کی
اپنا غریب زادے نے دل پیش کر دیا
تھی اک امیر زادی کو حاجت شکار کی
قاصد بتا رہا تھا وہ مسرور تھے بہت
"پہنچی خبر جو ان کو مرے انتظار کی"
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
دل پر مرے رقم ہے غزل یہ خمار کی
وہ بے وفا نہ لوٹ کے آئے گا حشر تک
محنت فضول جائے گی امیدوار کی
وہ خوش رہے جہاں بھی رہے کائنات میں
یہ آرزو ہے صرف دل بے قرار کی
اس کا طواف کرتی ہے حوروں کی انجمن
آنکھوں میں بس گیا ہے جو پروردگار کی
مالی نے گلستاں کو خزاں میں بدل دیا
کوئی خبر نہیں ابھی فصل بہار کی
مسند نشین واقف حالات ہے مگر
اُس کو نہیں ہے فکر غم روزگار کی
پوچھا نہیں کسی نے غریب الدیار سے
گزری ہے کیسے عید غریب الدیار کی
محور کو دشمنوں کا کوئی خوف ہی نہیں
اوقات جانتا ہے وہ گرد و غبار کی
محور سرسوی
No comments:
Post a Comment