تہمت کسی کی کیوں مِرے دامن سے جُڑی ہے
اک گفتگو ہے جو مِری الجھن سے جڑی ہے
اک تیرگی ہے رات کے دامن میں کہیں گُم
اک روشنی ہے جو کسی روزن سے جڑی ہے
جس کو بڑے ہی شوق سے ہر اک نے سُنا ہے
وہ گُفتگو بھی آپ کے آنگن سے جڑی ہے
محروم رہے دید تمہاری سے تو کیوں کر
اک زندگی ہے جو تِرے درشن سے جڑی ہے
دھڑکا سا لگا رہتا ہے جل جائے نہ اک دن
اک آگ سی ہے جو مِرے خِرمن سے جڑی ہے
ظاہر تو کسی روز وہ ہو جائے گی آخر
وہ بات جو اب تک تِری چلمن سے جڑی ہے
اک روز وہ بھی ٹُوٹ کے گِر جائے گی زاہد
زنجیر گداگر کے جو برتن سے جڑی ہے
محبوب زاہد
No comments:
Post a Comment