Saturday, 10 February 2024

دوستی مشکل میں تھی اور دشمنی ممکن نہ تھی

 دوستی مُشکل میں تھی اور دُشمنی مُمکن نہ تھی

زندگی تجھ سے مِری اب دل لگی ممکن نہ تھی

جان لیتے گر، دیارِ عشق میں رکھتے قدم؟

جس گُزرگاہ پر کبھی آسُودگی ممکن نہ تھی

اک فقط سادہ دلی نے حشر تک پہنچا دیا

بے حِسوں سے بھی ہماری بے رُخی ممکن نہ تھی

نہ کوئی شکوہ ستم کا نہ جفاؤں پر گِلہ

اس سے بڑھ کر اور مجھ میں عاجزی ممکن نہ تھی

تم جفا کا تاج پہنے آج تک ہو سرخرُو

اور وفاؤں سے ہماری سرکشی ممکن نہ تھی

رات کی تاریکیوں نے راستہ چھوڑا نہیں

دل دِیا بھی پھڑپھڑایا، آتشی ممکن نہ تھی

لوٹ کر آیا تو سارے خواب چکنا چُور تھے

آنکھ تھی ویران، ہونٹوں پر ہنسی ممکن نہ تھی

وقت نے یکسر جُدائی ڈال دی ہے درمیاں

جس تعلق میں ذرا سی بہتری ممکن نہ تھی

ذات کے ادراک میں راجی کہاں تک آ گئی 

ورنہ شاید زاہدہ سے شاعری ممکن نہ تھی


زاہدہ رئیس راجی

No comments:

Post a Comment