Saturday, 10 February 2024

یہ جو صداقتوں کی تکذیب ہو رہی ہے

 یہ جو صداقتوں کی تکذیب ہو رہی ہے

تعمیر تو نہیں ہے تخریب ہو رہی ہے

برفاب نے بدن کو ایسے جلا دیا ہے

تبدیل میرے دل کی تہذیب ہو رہی ہے

جس کو مِرا جنازہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں

اے دوست! الوداعی تقریب ہو رہی ہے

سینے میں دھڑکنوں سے اک زلزلہ بپا پے

قائم نئے سِرے سے ترتیب ہو رہی ہے

پل پل جو بے قراری تڑپا رہی ہے مجھ کو

کیا عشق کی بدن میں تنصیب ہو رہی ہے


اسلم عارفی

No comments:

Post a Comment