یہ جو صداقتوں کی تکذیب ہو رہی ہے
تعمیر تو نہیں ہے تخریب ہو رہی ہے
برفاب نے بدن کو ایسے جلا دیا ہے
تبدیل میرے دل کی تہذیب ہو رہی ہے
جس کو مِرا جنازہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں
اے دوست! الوداعی تقریب ہو رہی ہے
سینے میں دھڑکنوں سے اک زلزلہ بپا پے
قائم نئے سِرے سے ترتیب ہو رہی ہے
پل پل جو بے قراری تڑپا رہی ہے مجھ کو
کیا عشق کی بدن میں تنصیب ہو رہی ہے
اسلم عارفی
No comments:
Post a Comment