طوفان ہے، آندھی ہے، تلاطُم ہے، بلا ہے
وہ کرب جو احساس کے پردے میں چُھپا ہے
بُجھنا تو مقدّر ہے چراغوں کا ازل سے
جلنے کا شرف صرف جہنّم کو مِلا ہے
دونوں کی پسند ہے مِرے افکار پہ روشن
دولت میں ہے شیطان، قناعت میں خُدا ہے
اِس دَورِ ترقی میں اُجالوں کی کمی ہے
انسان اندھیروں کی طرف لوٹ رہا ہے
بے وجہ نہیں آیا ہے ظالم کو پسینہ
حسرت سے کوئی سُوئے فلک دیکھ رہا ہے
کھاتا ہوں، کِھلاتا ہوں پرندوں کو بھی دانہ
سر پر مِرے معصوم پرندوں کی دُعا ہے
اچھائی کو فرسُودگی اب کہتی ہے دُنیا
یہ مغربی تہذیب کے چشمے کی عطا ہے
اسرارالحق فیاضی
No comments:
Post a Comment