ہم بے وفا ہیں اتنی وفاؤں کے باوجود
وہ با وفا ہیں ساری خطاؤں کے باوجود
جن کی جڑیں زمین میں گہری ہیں وہ درخت
گرتے نہیں ہیں تیز ہواؤں کے باوجود
بکھری ہے زُلف چاند سے چہرے کے آس پاس
روشن ہے رات کالی گھٹاؤں کے باوجود
ہم حق کے راستے پہ ہیں اپنے خُدا کے ساتھ
وہ در بہ در ہیں اتنے خُداؤں کے باوجود
توبہ کے در پہ آیا ہوں میں اس یقیں کے ساتھ
وہ بخش دے گا مجھ کو خطاؤں کے باوجود
شاید اسے لگی کسی دُکھیاری ماں کی ہائے
برباد ہو گیا وہ دُعاؤں کے باوجود
کہتے ہیں اس کو ذہن کی بے پردگی حسن
جو بے ردا ہیں سر پہ رداؤں کے باوجود
حسن فتحپوری
حسن مصطفیٰ رضوی
No comments:
Post a Comment