Saturday, 10 February 2024

ہم بے وفا ہیں اتنی وفاؤں کے باوجود

 ہم بے وفا ہیں اتنی وفاؤں کے باوجود

وہ با وفا ہیں ساری خطاؤں کے باوجود

جن کی جڑیں زمین میں گہری ہیں وہ درخت

گرتے نہیں ہیں تیز ہواؤں کے باوجود

بکھری ہے زُلف چاند سے چہرے کے آس پاس

روشن ہے رات کالی گھٹاؤں کے باوجود

ہم حق کے راستے پہ ہیں اپنے خُدا کے ساتھ

وہ در بہ در ہیں اتنے خُداؤں کے باوجود

توبہ کے در پہ آیا ہوں میں اس یقیں کے ساتھ

وہ بخش دے گا مجھ کو خطاؤں کے باوجود

شاید اسے لگی کسی دُکھیاری ماں کی ہائے

برباد ہو گیا وہ دُعاؤں کے باوجود

کہتے ہیں اس کو ذہن کی بے پردگی حسن

جو بے ردا ہیں سر پہ رداؤں کے باوجود


حسن فتحپوری

حسن مصطفیٰ رضوی

No comments:

Post a Comment