سفر جاری رہے گا
جہالت چاہتے ہو
قدامت پُوجتے ہو
ہلاکت بانٹتے ہو
خدا کے نام پر تم
نہتے شہریوں میں قضا تقسیم کرتے ہو
کہیں یہ سوچ پاؤ
خدا رہتا کہاں ہے؟
عقائد کا جزیرہ جو طوفانوں سے اُلجھے تو دھڑکن تیز تر ہو
اور ان دیکھے سفر پر تفکّر گامزن ہو
مگر تم نے تو سِیکھا، قضا تقسیم کرنا
مکاں مِسمار کر کے، مکِیں بھی مار دینا
کہاں سے تم نے سِیکھا خدا پہ وار کرنا؟
مگر تم کیسے سمجھو نئی سوچوں کی بابت؟
نئے جذبوں کی حالت تمہیں معلوم کیا ہو
کہ نسلِ بُو جہل سے تمہارا سلسلہ ہے
عرب کے بدوؤں سے تمہارا رابطہ ہے
قدامت کے پُجاری تمہیں تخلیق کر کے تماشا بیچتے ہیں
مگر وہ کیا کریں گے؟
قدم بھی کیا رُکے ہیں؟
جن اندھی قوّتوں نے ہماری راہ روکی انہیں پھر آزماؤ
تمہیں معلوم ہو گا، وہ کتنی رہ گئی ہیں
جو کانٹے راہ کے تھے، وہ کتنے بچ گئے ہیں
جو سوچیں ڈر گئی تھیں
وہ کیسے بانکن سے بہادر ہو گئی ہیں
جو آنکھیں کھو گئی تھیں
وہ کیسی چاہ سے اب ستارے دیکھتی ہیں
واصف اختر
No comments:
Post a Comment