میں سمجھتا تھا جسے غیر نہیں بھائی ہے
سر پہ تلوار اسی نے میرے لٹکائی ہے
جائیں تو جائیں کدھر جان پہ بن آئی ہے
دائیں جانب ہے کنواں بائیں طرف کھائی ہے
پیش کیوں کرتے ہو شیشے کے مشابہ خود کو
ہم نے یہ زندگی ہیرے کی طرح پائی ہے
مشورے میں مرے کیا خامی نظر آئی تمہیں
تم نے تجویز میری کس لئے ٹھکرائی ہے
جس طرح تو دبے پاؤں چلی آتی تھی کبھی
وہ ہی ترکیب تری یاد نے اپنائی ہے
آئینہ ٹوٹ کے بکھرے تو تعجّب کیسا
سحر انگیز صنم آپ کی انگڑائی ہے
مٹ نہیں سکتی مٹانے سے زبانِ اردو
میرؔ و غالبؔ سے نئی اس نے جلا پائی ہے
تیری آواز میں آواز ملاؤں کیسے
خود غرض تو ہے تو پیاری مجھے سچّائی ہے
کہکشاں اس کے قدم چوم رہی ہے کامل
آج بھی فہم و فراست میں وہ اونچائی ہے
ریاض الدین کامل
No comments:
Post a Comment