Saturday 10 February 2024

میں سمجھتا تھا جسے غیر نہیں بھائی ہے

 میں سمجھتا تھا جسے غیر نہیں بھائی ہے

سر پہ تلوار اسی نے میرے لٹکائی ہے

جائیں تو جائیں کدھر جان پہ بن آئی ہے

دائیں جانب ہے کنواں بائیں طرف کھائی ہے

پیش کیوں کرتے ہو شیشے کے مشابہ خود کو

ہم نے یہ زندگی ہیرے کی طرح پائی ہے

مشورے میں مرے کیا خامی نظر آئی تمہیں

تم نے تجویز میری کس لئے ٹھکرائی ہے

جس طرح تو دبے پاؤں چلی آتی تھی کبھی

وہ ہی ترکیب تری یاد نے اپنائی ہے

آئینہ ٹوٹ کے بکھرے تو تعجّب کیسا

سحر انگیز صنم آپ کی انگڑائی ہے

مٹ نہیں سکتی مٹانے سے زبانِ اردو

میرؔ و غالبؔ سے نئی اس نے جلا پائی ہے

تیری آواز میں آواز ملاؤں کیسے

خود غرض تو ہے تو پیاری مجھے سچّائی ہے

کہکشاں اس کے قدم چوم رہی ہے کامل

آج بھی فہم و فراست میں وہ اونچائی ہے


ریاض الدین کامل

No comments:

Post a Comment