بہت دن ہو گئے ہیں دوستو! ہم کو وطن دیکھے
گھڑے سر پہ اُٹھائے ناچتے گاتے بدن دیکھے
قمیضیں بوسکی کی، اور وہ شلوار لٹھے کی
وہ تِلے دار جُوتی پہ کسی مُفلس کا فن دیکھے
وہ بانگ صُبح مُرغے کی وہ تیتر کی ثناء خوانی
بتاؤ کون سی آنکھوں نے یہ صاحب سخن دیکھے
بڑے شہروں میں آ کے کھو چکے پہچان تک اپنی
نہ وہ رشتوں کی سچائی نہ پھر وہ اُجلے من دیکھے
مِرا کب صاحبِ علم و ہُنر ہونے کا دعوٰی ہے
جو مجھ پہ طنز کرتا ہے وہ اپنا بھی چلن دیکھے
مِرے منصور کو سمجھاؤ کہ انگلینڈ سے آ کر
وہ کالا باغ میں دریائے سِندھو کا پتن دیکھے
افضل عاجز
افضل داد
No comments:
Post a Comment