Saturday, 10 February 2024

کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا

 کوئی زاری سنی نہیں جاتی، کوئی جرم معاف نہیں ہوتا

اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا

کبھی دمکیں سونے کے ذرے کبھی جھلکے مُرغابی کا لہو

کئی پیاسے کب سے کھڑے ہیں، مگر پانی شفاف نہیں ہوتا

کوئی زُلف اُڑے تو بکھر جانا کوئی لب دہکیں تو ٹھٹھر جانا

کیا تزکیہ کرتے ہو دل کا،۔ یہ آئینہ صاف نہیں ہوتا

کئی موسم مجھ پر گُزر گئے احرام کے ان دو کپڑوں میں

کبھی پتھر چُوم نہیں سکتا، کبھی اذنِ طواف نہیں ہوتا

یہاں تاج اس کے سر پر ہو گا جو تڑکے شہر میں داخل ہو

یہاں سایہ ہُما کا نہیں پڑتا، یہاں کوہ قاف نہیں ہوتا


اظہار الحق

No comments:

Post a Comment