Saturday, 10 February 2024

آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا

 آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا

نیند گہری تھی اور خواب بھی تھا

اک بگُولا تھا ریت کا پیچھے

دشت میں سامنے سراب بھی تھا

میری قسمت کے سرد ہاتھوں میں

میرے حصے کا کچھ عذاب بھی تھا

ہمسفر!! اس سفر میں تُو ہی بتا؟ 

کیا سوالوں کا کچھ جواب بھی تھا

بزم میں لُٹ رہے تھے مِینا و جام

اور عادت کا وہ خراب بھی تھا

ساری دُنیا کا انتخاب تھا وہ

اور وہ میرا انتخاب بھی تھا

تھا کبھی وقت جب ہمارا دل

اک مہکتا ہوا گُلاب بھی تھا

کھوئی کھوئی سی اس کی آنکھوں میں

مجھ کو پانے کا اک خواب بھی تھا

زندگی تھی کُھلی کتاب مِری

اور وہ صاحبِ کتاب بھی تھا


مونا شہاب

No comments:

Post a Comment