Sunday 11 February 2024

لوگ بے ہوش ہیں اس قوم کے بیدار کہاں

 لوگ بے ہوش ہیں اس قوم کے بیدار کہاں

ہم کہاں رہ گئے جا پہنچے ہیں اغیار کہاں

اب وہ کنعان کہاں، مصر کا بازار کہاں

اب زلیخا سا ملے کوئی خریدار کہاں

میری اوقات کہاں ہے کہ تُو مِل جائے مجھے

میں کہاں اور تری ذات کا ایثار کہاں

صاف انکار کِیا کرتا تھا پہلے تُو مجھے

اب وہ اقرار کہاں اور ترا انکار کہاں

کم نظر کو نظر آئے نہ ترا نقشِ قدم

بخت بیدار تو ہے، دیدہِ بیدار کہاں

کتنی صدیوں کا سفر چشم زدن میں ہُوا طے

اب  زمانے کو میسر ہے وہ رفتار کہاں

کاٹ دی ہم نے خزاں، جیسے کٹی، کٹ ہی گئی

کھو گیا فصلِ بَہاراں میں مگر یار کہاں

بے سبب  اُس نے بھلایا ہے تجھے میر مگر

تو اسے ڈھونڈتا پھرتا ہے مرے یار کہاں


اشتیاق میر

No comments:

Post a Comment