یہاں سے جو نکل کر بھاگنا چاہے اجازت ہے
قیامت کی ضرورت کیا یہ پل خود ہی قیامت ہے
دعا جس نے نہیں کرنی اسے بھی معاف کرنا ہے
اگر ایسا ہی ہونا یے مجھے تو پھر اجازت ہے
ترے بندے تیری باتیں سناتے ہیں ڈراتے ہیں
اگر تو بھی یہی سب ہے مجھے تو پھر اجازت ہے
ترا غم کون لیتا ہے اگر ہو بیش قیمت غم
مرا دل تو نہیں ٹوٹا مجھے تو پھر اجازت ہے
سر بازار جو مانگے تیرے ہی نام کا صدقہ
اسے میری متاع دے دوں مجھے تو پھر اجازت ہے
سکینہ کو بلاتے ہیں علیؑ اصغر علیؑ اکبر
مجھے حیدرؑ بلاتے ہیں مجھے تو پھر اجازت ہے
علیؑ کے نام کا صدقہ مرا جینا مرا مرنا
مجھے نانا بلاتے ہیں مجھے تو پھر اجازت
علیؑ مشکل کشا ہر دم علیؑ دم دم علیؑ حیدر
مجھے عباسؑ کہتے ہیں مجھے تو پھر اجازت ہے
کسی کو نام سے اسرار کے نسبت کہاں ملتی
مجھے ہی سچ بتانا تھا مجھے تو پھر اجازت ہے
اسرار ہاشمی
No comments:
Post a Comment