Sunday 11 February 2024

یہاں سے جو نکل کر بھاگنا چاہے اجازت ہے

 یہاں سے جو نکل کر بھاگنا چاہے اجازت ہے

قیامت کی ضرورت کیا یہ پل خود ہی قیامت ہے

دعا جس نے نہیں کرنی اسے بھی معاف کرنا ہے

اگر ایسا ہی ہونا یے مجھے تو پھر اجازت ہے 

ترے بندے تیری باتیں سناتے ہیں ڈراتے ہیں 

اگر تو بھی یہی سب ہے مجھے تو پھر اجازت ہے 

ترا غم کون لیتا ہے اگر ہو بیش قیمت غم

مرا دل تو نہیں ٹوٹا مجھے تو پھر اجازت ہے 

سر بازار جو مانگے تیرے ہی نام کا صدقہ

اسے میری متاع دے دوں مجھے تو پھر اجازت ہے

سکینہ کو بلاتے ہیں علیؑ اصغر علیؑ اکبر

مجھے حیدرؑ بلاتے ہیں مجھے تو پھر اجازت ہے 

علیؑ کے نام کا صدقہ مرا جینا مرا مرنا

مجھے نانا بلاتے ہیں مجھے تو پھر اجازت

علیؑ مشکل کشا ہر دم علیؑ دم دم علیؑ حیدر

مجھے عباسؑ کہتے ہیں مجھے تو پھر اجازت ہے

کسی کو نام سے اسرار کے نسبت کہاں ملتی

مجھے ہی سچ بتانا تھا مجھے تو پھر اجازت ہے


اسرار ہاشمی 

No comments:

Post a Comment