دل کا سکون ڈھونڈنے جائے بشر کہاں
ایسا نگر ہے کون سا ایسا ہے در کہاں
تم نے تو کہہ دیا کہ چلے جاؤ بزم سے
یہ تو بتا دو ہم کو کہ جائیں کدھر کہاں
اس کی گلی کو چھوڑ کے آ تو گئے مگر
اب سوچتے ہیں گزریں گے شام و سحر کہاں
پھیلی ہوئی ہے دھوپ مصائب کی دور تک
اب سایہ دار راہ میں میری شجر کہاں
جب چارہ گر ہی کوئی نہیں تیرے شہر میں
لے کر میں جاؤں اپنا یہ زخم جگر کہاں
کسی کی قمر تلاش ہے کسی کی ہے آرزو
نکلے ہو اتنی رات میں تنہا ادھر کہاں
جاوید قمر
No comments:
Post a Comment