Sunday 11 February 2024

دل کا سکون ڈھونڈنے جائے بشر کہاں

 دل کا سکون ڈھونڈنے جائے بشر کہاں

ایسا نگر ہے کون سا ایسا ہے در کہاں

تم نے تو کہہ دیا کہ چلے جاؤ بزم سے

یہ تو بتا دو ہم کو کہ جائیں کدھر کہاں

اس کی گلی کو چھوڑ کے آ تو گئے مگر

اب سوچتے ہیں گزریں گے شام و سحر کہاں

پھیلی ہوئی ہے دھوپ مصائب کی دور تک

اب سایہ دار راہ میں میری شجر کہاں

جب چارہ گر ہی کوئی نہیں تیرے شہر میں

لے کر میں جاؤں اپنا یہ زخم جگر کہاں

کسی کی قمر تلاش ہے کسی کی ہے آرزو

نکلے ہو اتنی رات میں تنہا ادھر کہاں


جاوید قمر

No comments:

Post a Comment