تم عمل کیے جاؤ تم کو کس نے روکا ہے
ہم تو خواب دیکھیں گے یہ ہمارا حصّہ ہے
آشیاں کو جلتے تو ہر نظر نے دیکھا ہے
کتنے جل چُکے ارماں کیا کسی نے سونچا ہے
حسرتیں زمانے کی پال کر کرو گے کیا
وہ ہی فصل کاٹو گے بیج جس کا بویا ہے
اُس سے غیر اچھّے ہیں ہنس کے مل تو لیتے ہیں
بھائی نے مجھے اکثر گھور کر ہی دیکھا ہے
نہ زبان شیریں ہے، نہ بیان سنجیدہ
مقتدی پریشاں ہیں، یہ امام کیسا ہے
رات دن کے سجدے ہیں مسجدوں میں جھگڑے ہیں
بے اثر دعاؤں کا حشر یہ ہی ہوتا ہے
باغباں کی محنت ہوں اور خدا کی رحمت ہوں
خار دار شاخوں پر تب گلاب کِھلتا ہے
دوسروں کی عینک سے خود کو دیکھیے احسن
آپ اپنی نظروں سے تو سبز سبز دکھتا ہے
مشتاق احسن
No comments:
Post a Comment