Monday, 12 February 2024

اللہ کی رحمت سے وہ سرشار ہوا ہے

 اللہ کی رحمت سے وہ سرشار ہوا ہے

سن کر جو اذاں صبح کی بستر سے اٹھا ہے

میں کیسے یہ کہہ دوں کے وہ انسان برا ہے

وہ جب بھی ملا مجھ کو محبت سے ملا ہے

آئے جو پریشانی تو حالات پہ کر غور

بے وجہ نہیں تجھ پہ مسلط یہ بلا ہے

آوارہ ہواؤں کی طرح اڑتا رہا جو

کاسہ لیے ہاتھوں میں سر راہ کھڑا ہے

قاتل کو قتل کرتے ہوئے جس نے تھا دیکھا

پوچھے ہے تعجب سے وہی ماجرا کیا ہے

مت بیچ ضمیر اپنا تو دولت کی ہوس میں

ہر خاک کے پتلے کو خدا دیکھ رہا ہے

انصاف بھی خیرات میں منصف نہیں دیتا

قانون بھی دولت کا پرستار رہا ہے

کرتے سلام لوگ ہیں چہروں کو دیکھ کر

اب شہر میں اپنے یہ چلی کیسی ہوا ہے

جس راستے پہ میں تھا چلا اتفاق سے

وہ راستہ جا کر ترے کوچے سے ملا ہے

حسرت بھری نظروں سے مجھے دیکھ نہ حیرت

جو بھی ہے ملا مجھ کو مقدر سے ملا ہے


خلیل حیرت

No comments:

Post a Comment