اللہ کی رحمت سے وہ سرشار ہوا ہے
سن کر جو اذاں صبح کی بستر سے اٹھا ہے
میں کیسے یہ کہہ دوں کے وہ انسان برا ہے
وہ جب بھی ملا مجھ کو محبت سے ملا ہے
آئے جو پریشانی تو حالات پہ کر غور
بے وجہ نہیں تجھ پہ مسلط یہ بلا ہے
آوارہ ہواؤں کی طرح اڑتا رہا جو
کاسہ لیے ہاتھوں میں سر راہ کھڑا ہے
قاتل کو قتل کرتے ہوئے جس نے تھا دیکھا
پوچھے ہے تعجب سے وہی ماجرا کیا ہے
مت بیچ ضمیر اپنا تو دولت کی ہوس میں
ہر خاک کے پتلے کو خدا دیکھ رہا ہے
انصاف بھی خیرات میں منصف نہیں دیتا
قانون بھی دولت کا پرستار رہا ہے
کرتے سلام لوگ ہیں چہروں کو دیکھ کر
اب شہر میں اپنے یہ چلی کیسی ہوا ہے
جس راستے پہ میں تھا چلا اتفاق سے
وہ راستہ جا کر ترے کوچے سے ملا ہے
حسرت بھری نظروں سے مجھے دیکھ نہ حیرت
جو بھی ہے ملا مجھ کو مقدر سے ملا ہے
خلیل حیرت
No comments:
Post a Comment