Monday 12 February 2024

قیامت ہے مگر بھولی ہوئی ہے

 قیامت ہے مگر بُھولی ہوئی ہے

بچھڑنے کی وبا پھوٹی ہوئی ہے

تِری آنکھوں کے حلقے کہہ رہے ہیں

کہ تجھ سے زندگی رُوٹھی ہوئی ہے

مِری وحشت مِرے جانے سے پہلے

کسی کی آنکھ میں ٹھہری ہوئی ہے

سیہ شب ہے کسی کی رخصتی ہے

دِیے کی لو تلک سہمی ہوئی ہے

یہ کس نے ہونٹ رکھے ہیں جبیں پر

اُداسی نیند تک پھیلی ہوئی ہے

بچھڑ کے وقت کٹتا جا رہا ہے

مگر میں نے گھڑی روکی ہوئی ہے

محبت کون سی، کیسی محبت؟

تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے


عرفان شاہد

No comments:

Post a Comment