زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں
زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں اک ڈگر پر مسلسل روان
اک سٹیشن پر کچھ چاہنے والوں سے
مختصر سی ملاقات کے بعد پھر چل پڑے
آنکھ میں پل کوئی بھی ٹھہرتا نہیں
تیز رفتار ہیں بھاگتے دوڑتے سب مناظر یہاں
پھر صدا آ رہی ہے
ذرا دیر کو ہم رکیں گے کہیں
آہ اک اور ملاقات کے منتظر
چاہتوں کے دیے ہاتھ میں تھام کر پھر ملیں
دل ابھی تشنہ ہوں گے کہ سیٹی بجے گی چلو
برق لمحے رفاقت کا ساماں اٹھائے ملے
ہر خوشی بیگ میں بند کر کے روانہ ہوئے
پھرملیں گے کہیں
زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں ہے
مگر ہم اسے شور کرتے پلوں میں
محبت سے رکھنے سے عاری ہوئے
مہرباں فکر کو پھر بلانے سے عاری ہوئے
سال ہا سال کی ہر مشقت
کبھی ایک مُشفق دُعا کی طلب میں بُھلائیں چلو
کامیابی کے قصے بھلے ہیں تبھی
جب سبھی مہرباں پاس ہوں
دیر تک ساتھ ہوں
اور نگاہوں میں جلتے دِیے جگمگاتے رہیں
زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں
رابعہ سرفراز
No comments:
Post a Comment