Saturday, 2 March 2024

زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں

 زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں


زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں اک ڈگر پر مسلسل روان

اک سٹیشن پر کچھ چاہنے والوں سے 

مختصر سی ملاقات کے بعد پھر چل پڑے

آنکھ میں پل کوئی بھی ٹھہرتا نہیں 

تیز رفتار ہیں بھاگتے دوڑتے سب مناظر یہاں

پھر صدا آ رہی ہے

ذرا دیر کو ہم رکیں گے کہیں 

آہ اک اور ملاقات کے منتظر

چاہتوں کے دیے ہاتھ میں تھام کر پھر ملیں

دل ابھی تشنہ ہوں گے کہ سیٹی بجے گی چلو

برق لمحے رفاقت کا ساماں اٹھائے ملے

ہر خوشی بیگ میں بند کر کے روانہ ہوئے

پھرملیں گے کہیں

زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں ہے 

مگر ہم اسے شور کرتے پلوں میں 

محبت سے رکھنے سے عاری ہوئے

مہرباں فکر کو پھر بلانے سے عاری ہوئے

سال ہا سال کی ہر مشقت 

کبھی ایک مُشفق دُعا کی طلب میں بُھلائیں چلو 

کامیابی کے قصے بھلے ہیں تبھی 

جب سبھی مہرباں پاس ہوں

دیر تک ساتھ ہوں

اور نگاہوں میں جلتے دِیے جگمگاتے رہیں

زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں


رابعہ سرفراز

No comments:

Post a Comment