جو میرا ہوتا تھا پہلے اب اُس کا ہو رہا ہے
مجھے سمجھا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے
تیرے جانے نے دُنیاؤں کی ترتیبیں اُلٹ دیں
میرا جو زخم بھرنا تھا، وہ گہرا ہو رہا ہے
سمندر میں اُداسی کس طرف سے آ رہی ہے
یہ اتنا تھا نہیں اب جتنا گہرا ہو رہا ہے
کہیں ایسا نہ ہو تم جو بھی بولو سر سے گُزرے
میرے قد سے تمہارا شور اُونچا ہو رہا ہے
وہ جتنے شوق سے اور دُور سے آیا تھا ملنے
اب اتنے شوق سے مجھ سے علیحدہ ہو رہا ہے
مقیل بخاری
No comments:
Post a Comment