Sunday, 10 March 2024

دیکھا اسے قمر مجھے اچھا نہیں لگا

 دیکھا اسے، قمر مجھے اچھا نہیں لگا

چھو کر اسے، گہر مجھے اچھا نہیں لگا

چاہا اسے تو یوں کہ نہ چاہا کسی کو پھر

کوئی بھی عمر بھر مجھے اچھا نہیں لگا

آئینہ دل کا توڑ کے کہتا ہے سنگ زن

دل تیرا توڑ کر مجھے اچھا نہیں لگا

دل سے مرے یہ کہہ کے ستم گر نکل گیا

دل ہے ترا کھنڈر مجھے اچھا نہیں لگا

اگلا سفر ہو میرے خدا راحتوں بھرا

جیون کا یہ سفر مجھے اچھا نہیں لگا

دیکھا جو اس کے در پہ رقیبوں کا اک ہجوم

پھر اس کے گھر کا در مجھے اچھا نہیں لگا

تجدید رسم و راہ پہ وہ تو رہا مصر

وہ بے وفا مگر مجھے اچھا نہیں لگا

اس کا ہی ذکر بس تمہیں اچھا لگے سحاب

کہتے ہو تم مگر مجھے اچھا نہیں لگا


لئیق اکبر سحاب

No comments:

Post a Comment