اچھا ہوا جو عشق کا الزام آ گیا
فرہاد و قیس میں مِرا بھی نام آ گیا
توبہ شکن نہیں تھا مگر رہ نہیں سکا
اے شیخ! سامنے مِرے جب جام آ گیا
دینا نہ دل کسی کو مجھے وہ سِکھا گیا
وہ بے وفا ہو کر بھی مِرے کام آ گیا
دن تو گُزر ہی جاتا ہے نا کُو بکُو، مگر
اس غم کا کیا کریں جو سرِ شام آ گیا
جب دَم نکل گیا تو وہ یوں لب کُشا ہوئے
اچھا ہُوا مریض کو آرام آ گیا
عابد یوں کوئی لاکھ کہے اپنا ہوں مگر
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
عابد علی خاکسار
No comments:
Post a Comment