Sunday 10 March 2024

اچھا ہوا جو عشق کا الزام آ گیا

 اچھا ہوا جو عشق کا الزام آ گیا

فرہاد و قیس میں مِرا بھی نام آ گیا

توبہ شکن نہیں تھا مگر رہ نہیں سکا

اے شیخ! سامنے مِرے جب جام آ گیا

دینا نہ دل کسی کو مجھے وہ سِکھا گیا

وہ بے وفا ہو کر بھی مِرے کام آ گیا

دن تو گُزر ہی جاتا ہے نا کُو بکُو، مگر

اس غم کا کیا کریں جو سرِ شام آ گیا

جب دَم نکل گیا تو وہ یوں لب کُشا ہوئے

اچھا ہُوا مریض کو آرام آ گیا

عابد یوں کوئی لاکھ کہے اپنا ہوں مگر

اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا


عابد علی خاکسار

No comments:

Post a Comment