Thursday 7 March 2024

ستم تو یہ ہے کہ جن کے لیے اٹھائے عذاب

 ستم تو یہ ہے کہ جن کے لیے اٹھائے عذاب 

اٹھا کے جھولیاں دیتے ہیں بد دُعائے عذاب

ہمارے خواب ہمیشہ ہرے بھرے تھے مگر

ملا نہیں ہے ہمیں کچھ بھی ما سوائے عذاب 

یہ زندگی کی دعا تھی کہ بد دعا تھی کوئی 

برائے عشق گزاری ہے مبتلائے عذاب  

اداسیوں کا سبب عمرِ رائیگاں تو نہیں 

بے چینیوں کا سبب ہے کہ یاد آئے عذاب 

کسی کا دستِ دعا ہم سفر ہے جس کے طفیل 

بھٹک رہے ہیں تعاقب میں سٹپٹائے عذاب

فراق و ہجر میں جینا بھی اِک عذاب ہی تھا

شبِ وصال بھی حیرت ہے پیش آئے عذاب 

مرے نصیب پہ آئے گا رشک سن تو سہی 

مجھے ملے ہیں صداقت بنے بنائے عذاب


سید صداقت علی

No comments:

Post a Comment