Wednesday, 6 March 2024

آ تجھ کو میں بتاؤں کہ روح کی غذا ہے کیا

 مخملی غلاف میں

ریشمی لباس میں

سانچے ہیں جو خاک کے

یہ پربتوں میں ره چکے

گیت سبھی یہ کہہ چکے

مُٹھی بھر سکون سے

مگر جدا جدا ہیں یہ

ہیں قہقہوں کی آڑ میں

مگر خفا خفا ہیں یہ

یہ طلسم ہے، خمار ہے؟

یا جادوئی بہار ہے؟

کیوں ذات سے شغف نہیں؟ 

وجود ہی معیار ہے؟

کہاں گئے وه رابطے وه ضابطے؟

نہیں پتہ؟ سکونِ دِل کے راستے؟

یہ زرق برق قُمقمے

 رُوح کی غذا ہیں کیا؟

بلند و بالا مرتبے

 روح کی غذا ہیں کیا؟

یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں 

روح کی غذا ہیں کیا؟

آ تجھ کو میں بتاؤں کہ

روح کی غذا ہے کیا

وه نقطہ ہے بلا شبہ 

وجود جس پہ مرتکز

کہ لفظوں کی زبان میں 

وجدان جس کا نام ہے

یہی عشق کا معیار ہے

روح کا قرار ہے

گر جو اِس کو پا لیا 

تو درد کی دوا ہے یہ

یہی طریقِ بندگی 

خلاصہ ہے کلام کا

مگر شہرِ خاک میں بیشتر 

پجاری ہیں وجود کے

بھکاری ہیں وجود کے

سو! مخملی غلاف میں

ریشمی لباس میں

سانچے ہیں جو خاک کے

یہ پربتوں میں ره چکے

گیت سبھی یہ کہہ چکے

مُٹھی بھر سکون سے

مگر جُدا جُدا ہیں یہ

ہیں قہقہوں کی آڑ میں

مگر خفا خفا ہیں یہ


مشعال اعجاز

No comments:

Post a Comment