Friday 8 March 2024

سرشت حسن کا جلوہ دکھائے دیتا ہے

 سرشتِ حسن کا جلوہ دکھائے دیتا ہے

بھنور کے بیچ بچھڑنے کی رائے دیتا ہے

تری ہنسی میں وہ سحرِ غنائے مطرب ہے

مری فغاں کو جو نغمہ بنائے دیتا ہے

کمالِ معرفتِ عشق کی بلندی پر

یہ کون پردۂ غیبت اٹھائے دیتا ہے

اسی نے حسنِ سماعت تمہیں دیا ہوگا

وہی جو ہم کو سخنور بنائے دیتا ہے

یہ کیسا شورِ خموشی ہے اندروں میرے

جو میرے کان کے پردے اڑائے دیتا ہے

وہ میری روح کی تکمیل کر چکا ہے تو پھر

بدن یہ کس کو صدائیں لگائے دیتا ہے

تجھے خبر ہے انہیں کے ہیں کوثر و تسنیم

تو جن کی پیاس پہ پہرے بٹھائے دیتا ہے

قسیمِ عشق ہے، الفت لٹا لٹا کے سفر

وجودِ نطفۂ شر کو مٹائے دیتا ہے


سفر نقوی

No comments:

Post a Comment