فرشتوں جیسے دنیا میں بشر جلدی نہیں آتے
کہ سچائی کے حامی بھی نظر جلدی نہیں آتے
تلاش رزق میں کچھ اس قدر مصروف رہتا ہوں
مری بچی یہ کہتی ہے کہ گھر جلدی نہیں آتے
نہ غم کا غم ہے مجھ کو اب نہ خوشیوں کی خوشی مجھ کو
اب آنکھوں میں بھی اشکوں کے گہر جلدی نہیں آتے
ہمیشہ دھند سی کیوں چھائی رہتی ہے فضاؤں میں
فلک پر اب ستارے بھی نظر جلدی نہیں آتے
ہمارے رہنما اکثر کریں دعویٰ خدائی کا
سیاست کے شجر پر اب ثمر جلدی نہیں آتے
بہ مشکل سانس لیتے ہیں مکاں اونچے بنے اتنے
کہ جھونکے بھی ہواؤں کے ادھر جلدی نہیں آتے
حبیب سیفی
No comments:
Post a Comment