طلبِ شفا کا تم کو سلیقہ نہیں کوئی
دیوارِ گِریہ ہے یہ مسیحا نہیں کوئی
رستے کے انتخاب میں دونوں اسیر ہیں
گاڑی کے ایک بیل کی منشا نہیں کوئی
تنہائیوں کا بھوت ہمیشہ ہے ساتھ ساتھ
یعنی کہ اس جہان میں تنہا نہیں کوئی
میری سرشت میں کئی پنہاں ہیں لرزشیں
آدم نژاد ہوں میں فرشتہ نہیں کوئی
سدرہ سے ماورا کئی منظر ہیں آنکھ میں
کہنے کو آئینے میں تو رستہ نہیں کوئی
یہ ایک خاصیت ہے مِری آستین میں
جب تک نہ پیٹ خالی ہو ڈستا نہیں کوئی
مکرم حسین اعوان
No comments:
Post a Comment