ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں
یہ پھول خوشبو کی رائیگانی سے ڈر گئے ہیں
ہمیں بھی رخصت کی رسم کچھ تو نباہنا تھی
تمہاری آنکھوں میں آئے پانی سے ڈر گئے ہیں
یہ تیر جتنے فضا میں آ کر ٹھہر گئے ہیں
کسی پرندے کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں
ابھی تو دل کو اداس کرتی نہیں ہیں شامیں
ابھی سے کیوں غم کی حکمرانی سے ڈر گئے ہیں
ہمیں بھی ساحل پہ گیت لکھتا تھا سپیوں سے
مگر ہواؤں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں
منور جمیل
No comments:
Post a Comment