Sunday 3 March 2024

ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں

 ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں

یہ پھول خوشبو کی رائیگانی سے ڈر گئے ہیں

ہمیں بھی رخصت کی رسم کچھ تو نباہنا تھی

تمہاری آنکھوں میں آئے پانی سے ڈر گئے ہیں

یہ تیر جتنے فضا میں آ کر ٹھہر گئے ہیں

کسی پرندے کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں

ابھی تو دل کو اداس کرتی نہیں ہیں شامیں

ابھی سے کیوں غم کی حکمرانی سے ڈر گئے ہیں

ہمیں بھی ساحل پہ گیت لکھتا تھا سپیوں سے

مگر ہواؤں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں


منور جمیل

No comments:

Post a Comment