سفید بنیا
قرض دے کر غریب ملکوں کو
چھین لیتا ہے روحِ آزادی
آج زیرِ عتاب ہے اس کے
ہر بڑا شہر، ہر حسیں وادی
مُدتوں سر اُٹھا کے چل نہ سکا
اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا
صاف دامن بچا گیا ہم سے
جب بھی مُشکل کوئی مقام آیا
بحرِ ہند آج تیری سوچیں بھی
اس کی توپوں کے سائے میں ہیں خموش
کوئی طوفان کیوں نہیں اُٹھتا
کیا ہُوا آج تیرا جوش و خروش
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment