زعفرانی غزل
جب میں اس کی گلی سے آیا تھا
مجھ کو کتے نے کاٹ کھایا تھا
کیسے قاضی سے ہو گلہ شکوہ
آشیاں خود ہی جب جلایا تھا
رات بیگم نے کہہ دیا؛ گھامڑ
زیرِ لب میں بھی مسکرایا تھا
نام کا ہی تھا شیر افگن میں
مجھ کو سالوں نے بھی ڈرایا تھا
آج تک بیچتا ہوں وہ جوتے
مسجدوں سے جنہیں چُرایا تھا
مجھ کو اُلو بنایا تھا جس نے
آج لیڈر وہ پھر سے آیا تھا
ٹھونس رکھا ہے سب تجوری میں
مال رشوت سے جو کمایا تھا
لوگ سمجھے جسے سڑی شاید
اس پہ اک بھوتنی کا سایا تھا
سن کے مسعود ہو گیا بہرہ
اس نے نغمہ ہی ایسا گایا تھا
مسعود جعفری
No comments:
Post a Comment