Monday 4 March 2024

جب میں اس کی گلی سے آیا تھا

 زعفرانی غزل


جب میں اس کی گلی سے آیا تھا

مجھ کو کتے نے کاٹ کھایا تھا

کیسے قاضی سے ہو گلہ شکوہ

آشیاں خود ہی جب جلایا تھا

رات بیگم نے کہہ دیا؛ گھامڑ

زیرِ لب میں بھی مسکرایا تھا

نام کا ہی تھا شیر افگن میں

مجھ کو سالوں نے بھی ڈرایا تھا

آج تک بیچتا ہوں وہ جوتے

مسجدوں سے جنہیں چُرایا تھا

مجھ کو اُلو بنایا تھا جس نے

آج لیڈر وہ پھر سے آیا تھا

ٹھونس رکھا ہے سب تجوری میں

مال رشوت سے جو کمایا تھا

لوگ سمجھے جسے سڑی شاید

اس پہ اک بھوتنی کا سایا تھا

سن کے مسعود ہو گیا بہرہ

اس نے نغمہ ہی ایسا گایا تھا


مسعود جعفری

No comments:

Post a Comment