گر جو ممکن ہو تو اتنا تو گوارا کیجیے
بہت رہ لیے اپنے اب خود کو ہمارا کیجیے
کہو تو جاں کی بازی بھی لگا ڈالیں ہم
پیار سے اک بار ذرا ہم کو اشارہ کیجیے
نظر التفات پڑ گئی تھی اک بار جو غلطی سے
گزارش ہے وہی غلطی دوبارہ کیجیے
یونہی بھٹکتی ہوئیں ہم تک پہنچ جائیں شاید
سوچوں کو اپنی اتنا تو آوارہ کیجیے
دیکھ کے یہ منظر دل مچل سا جاتا ہے
انگلیاں پھیر کے نہ یوں زلف سنوارا کیجیے
روز سج دھج کے گھر سے نکلنے سے پہلے
روبرو آئینے کے اپنی نظر اتارا کیجیے
اور نہ ڈھائیں ستم معصوم دل پہ ہمارے
بہت ہوا ظلم اب بس بھی خدارا کیجیے
آ جائیں دیارِ دل میں خرم کے کسی دن
اور آ کے اپنا ہی نظارہ کیجیے
خرم شہزاد
No comments:
Post a Comment