تیرے ظلم و جور کا روشن نشاں رہنے دیا
آفتابِ داغِ دل اے آسماں، رہنے دیا
ذبح ہونے کی تمنّا کھینچ لائی تھی مجھے
یہ قیامت کی کہ میرا امتحاں رہنے دیا
دل کی بیتابی کا قصہ خط میں ان کو لکھ دیا
صرف حالات شبِ غم کا بیاں رہنے دیا
نزع کا ہنگام تھا دل میں کسی کی یاد تھی
سب کو رخت کر دیا ایک مہماں رہنے دیا
حُسن میرِ قافلہ تھا، کی رعایت اس قدر
عشق کو ہمراہِ گردِ کارواں رہنے دیا
کون سا دل تھا نہ اُلفت نے مٹایا ہو جسے
تھی وہ بستی کون سی جس کا نشاں رہنے دیا
تیری ہیبت کا نہ اندازہ ہُوا، موت آ گئی
تُو نے ہم کو شامِ تنہائی، کہاں رہنے دیا
جل گیا نا، زیرِ سایہ بیٹھ کر آہیں جو کیں
کیوں دھواں حامد قریبِ آشیاں رہنے دیا
مرزا حامد لکھنوی
No comments:
Post a Comment