اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بے گانہ ہُوا
میں تِری محفل میں آ کر اور بھی تنہا ہوا
وقفِ دردِ جاں ہوا،۔ محوِ غمِ دنیا ہوا
دل عجب شے ہے کبھی قطرہ کبھی دریا ہوا
تیری آہٹ کے تعاقب میں ہوں صدیوں سے رواں
راستوں کے پیچ و خم میں ٹھوکریں کھاتا ہوا
لذت دیدار کی اے ساعتِ رخشاں! ٹھہر
پڑھ رہا ہوں میں تِرے چہرے پہ کچھ لکھا ہوا
اب تو تیرے حسن کی ہر انجمن میں دھوم ہے
جس نے میرا حال دیکھا،۔ تیرا دیوانہ ہوا
وہ سمے رخصت ہوئے ہمدم وہ شامیں کھو گئیں
کن خیالوں کے جھمیلوں میں ہے تُو الجھا ہوا
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment