Saturday 26 September 2020

کیوں طبیعت کہیں ٹھہرتی نہیں

 کیوں طبیعت کہیں ٹھہرتی نہیں

دوستی تو اداس کرتی نہیں

ہم ہمیشہ کے سیر چشم سہی

تجھ کو دیکھیں تو آنکھ بھرتی نہیں

شبِ ہجراں بھی روزِ بد کی طرح

کٹ تو جاتی ہے پر گزرتی نہیں

شعر بھی آیتوں سے کیا کم ہیں

ہم پہ مانا وحی اترتی نہیں

اس کی رحمت کا کیا حساب کریں

بس ہمیں سے حساب کرتی نہیں

یہ محبت ہے، سن! زمانے سن

اتنی آسانیوں سے مرتی نہیں

جس طرح تم گزارتے ہو فراز

زندگی اس طرح گزرتی نہیں


احمد فراز

No comments:

Post a Comment