Saturday, 26 September 2020

حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر

 کنیز


حضور آپ اور نصف شب مِرے مکان پر

حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر

حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں

حضور بولیے کہ وسوسے وبالِ ہوش ہیں

حضور، ہونٹ اس طرح کپکپا رہے ہیں کیوں

حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں

حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے

حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے

حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر

حضور کو نہ جانے کیا گماں ہے میری ذات پر

حضور منہ سے بہہ رہی ہے پیک صاف کیجیے

حضور آپ تو نشے میں ہیں، معاف کیجیے

حضور کیا کہا، میں آپ کو بہت عزیز ہوں

حضور کا کرم ہے ورنہ میں بھی کوئی چیز ہوں

حضور چھوڑئیے ہمیں ہزار اور روگ ہیں

حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں


احمد فراز

No comments:

Post a Comment