Thursday 24 September 2020

نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے

 نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے 

تمام شہر میں چر چا تِرے شاب کا ہے

شراب اپنی جگہ چاندنی ہے اپنی جگہ

مگر جواب ہی کیا حس بے نقاب کا ہے

ہوئے ہیں ناگہاں بسمل شریک بزم جو سب

قصور کچھ ہے تِرا کچھ تِرے نقاب کا ہے

نہ تُو نے مے چکھی زاہد نہ جرم عشق کیا

تو صبح و شام تجھے فکر کس عذاب کا ہے

مۓ طہور کا اس وقت لے نہ نام اے شیخ

یہ وقت شام تو انگور کی شراب کا ہے

صدا کے پاس ہے دنیا کا تجربہ واعظ

تمہاری بات میں بس فلسفہ کتاب کا ہے


صدا انبالوی

No comments:

Post a Comment