Thursday 24 September 2020

دل تو پتھر ہوئے غم پھر بھی کسک دیتے ہیں

 دل تو پتھر ہوئے، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں

آگ اتنی ہو تو پتھر بھی چمک دیتے ہیں

خاک گرتی ہے جو سر پر غمِ دنیا کی کبھی

نام لے کر تِرا ہولے سے جھٹک دیتے ہیں

زندگی جب بھی نظر آتی ہے عریاں اپنی

ہم تِرے درد کی پوشاک سے ڈھک دیتے ہیں

یاد کے پھول کتابوں میں دبے رہنے دو

خشک ہو جائیں تو کچھ اور مہک دیتے ہیں

جو نہ بادل میں رہیں اور نہ زمیں پر برسیں

وہی قطرے تو فضاؤں کو دھنک دیتے ہیں

جب سے آئی ہیں مِری آنکھوں میں نظریں اس کی

گھپ اندھیرے بھی اجالوں کی چمک دیتے ہیں

مجھ کو چہروں پہ نظر آتی ہے رفتارِ زماں

گھر کے آئینے زمانے کی جھلک دیتے ہیں


ظہیر احمد

No comments:

Post a Comment