کتنی بے نور تھی دن بھر نظرِ پروانہ
رات آئی تو ہوئی ہے سحر پروانہ
شمع جلتے ہی یہاں حشر کا منظر ہو گا
پھر کوئی پا نہ سکے گا خبر پروانہ
بجھ گئی شمع کٹی رات گئی سب محفل
اب اکیلے ہی کٹے گا سفر پروانہ
رات بھر بزم میں ہنگامہ ہی ہنگامہ تھا
صرف خاموشی ہے اب نوحہ گر پروانہ
ساری مخلوق تماشے کے لیے آئی تھی
کون تھا سیکھنے والا ہنر پروانہ
آسماں سرخ ہے سورج بھی ابھی ڈوبا ہے
ابھی روشن نہ کرو رہگزر پروانہ
نہ سہی جسم مگر خاک تو اڑتی پھرتی
کاش جلتے نہ کبھی بال و پر پروانہ
شمع کیا چیز ہے جلتی تو کہاں تک جلتی
ابھی زندہ ہے دل بے خطر پروانہ
ہائے وہ حسن کہ جس کا کوئی مشتاق نہیں
ہائے وہ شمع کہ ہے بے خبر پروانہ
جس طرح گزرے گی یہ رات گزر جائے گی
مدتوں یاد رہے گا اثر پروانہ
ایک ہی جست میں طے ہو گئی منزل شہزاد
کتنے آرام سے گزرا سفر پروانہ
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment